والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق |
نے احادیث سے ثابت کیا جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے باپ کی نافرمانی کی جائے؛ کیونکہ استاذ کو باپ کے برابر شمار کیا گیا ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إنّما أنا لکم بمنزلۃ الوالد أعلّمکم))(۱)
میں تمھارے لئے باپ کی حیثیت رکھتاہوں میں تمھیں علم سکھاتا ہوں۔ اسے احمد، دارمی، ابو داؤد، نسائی، ابن ما جہ اور ابن حبان نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے ۔ ''عین العلم'' میں ہے:
یبرّ الوالدین فالعقوق من الکبائر ویقدّم حقّ المعلّم علی حقّھما فھو سبب حیاۃ الروح(۲) اھـ ملخّصاً۔
والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے؛ کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھناچاہئے؛ کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے۔ (ملخّصاً) علامہ مناوی رحمہ اللہ تعالیٰ ''جامع صغیر'' کی شرح ''تیسیر'' میں نقل فرماتے ہیں کہ ؎
(1) ''سنن أبي داود''، کتاب الطہارۃ، باب کراہیۃ استقبال القبلۃ عند قضاء الحاجۃ، الحدیث: ۸، ج۱، ص۳۷۔ (2) ''عین العلم''۔