Brailvi Books

والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق
80 - 119
خدمت میں پیش کرتے ہیں اسی طریقے پر ایک شخص شریف النسب، معمر(عمر رسیدہ)، عالمِ دین، متقی،پرہیز گار جو سادات کی نسلِ پاک سے ہے مدّت سے ایک مسجد میں مقرر تھا اور مذکورہ بالا کام اچھی طرح ادا کرتا تھا طلبہ کو ''قرآن مجید'' اور فقہ پڑھاتا تھا گوجر قوم (جو لوگ اس علاقہ میں کم مرتبہ شمار کئے جاتے ہیں) کے ایک آدمی نے اپنا آبائی پیشہ ترک کر کے علم حاصل کرنا شروع کردیا اور انہی سید صاحب سے ''قرآن مجید''، ''کنز'' اور''قدوری'' وغیرہ دینی کتب پڑھیں پھر اسے فلسفے کا جنون سوار ہوا تو کچھ لوگوں سے طبعیات و الٰہیات کا ایک حصہ پڑھا جیسے کہ ہندوستان کے مدارس کا طریقہ ہے اور اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھناشروع کردیا اور جس استاذ نے اسے علمِ دین پڑھایا تھا اس کا مقابلہ شروع کردیا تھا اور آمدنی کے لالچ میں استاذ کو برطرف کرواکر خود اس کی جگہ مقرر ہونے کی کوشش شروع کردی اور فلسفے کے چند مسائل پڑھ لینے کی و جہ سے اس فقیہ پر اپنی فضیلت بگھارنے لگا اور اپنے آپ کو امامت کا زیادہ حقدار دکھانے لگا حالانکہ نہ علمِ دین میں اس کے برابر ہے نہ تقوٰی وپرہیز گاری میں حتی کہ اس کے حقِ استاذی کا انکار کردیا اور ابتداء میں ''قرآن مجید'' وغیرہ پڑھنے کو کچھ اہمیت نہ دی اور نہ ہی اس بناء پر اس کے حقِ استاذی کو تسلیم کیا، آیا ایسا شخص امامت کے لائق ہے یا نہیں؟ اور اگر امامت کے لائق ہے تو امامت کے لئے زیادہ بہتر وہ سید صاحب ہیں یا یہ شخص؟ بہر حال کیا یہ جائز ہے کہ اس معمر شریف (سیّد) فقیہ اور متقی کو بلا و جہ امامت سے ہٹادیں اور اس کی جگہ اس شخص کو مقرر کردیں، اور یہ واضح ہے کہ اس علاقے میں جس طرح کسی کو امامت کے لئے مقرر