Brailvi Books

والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق
74 - 119
القول قد بلغ إلی الذي اغتابہ فتوبتہ أن یستحل منہ وإن لم یبلغ إلیہ فلیستغفر اللہ سبحانہ ویضمر أن لا یعود إلی مثلہ، وفي ''روضۃ العلمائ'' سألت أبا محمد -رحمہ اللہ تعالٰی- فقلت لہ إذا تاب صاحب الغیبۃ قبل وصولہا إلی المغتاب عنہ: ہل تنفعہ توبۃ؟ قال: نعم! فإنّہ تاب قبل أن یصیر الذنب ذنباً أي: ذنباً یتعلّق بہ حقّ العبد؛ لأنّھا أنّھا تصیر ذنباً إذا بلغت إلیہ، قلت: فإن بلغت إلیہ بعد توبتہ؟ قال: لا تبطل توبتہ بل یغفر اللہ تعالٰی لھما جمیعاً المغتاب بالتوبۃ والمغتاب عنہ بما یلحقہ من المشقّۃ؛ لأنّہ تعالٰی کریم ولایحمل من کرمہ ردّ توبتہ بعد
فرمایا کہ غیبت کرنے والا صاحب ِحق (جس کی غیبت کی گئی) سے معافی مانگے بغیر توبہ کرے تو اس میں لوگوں نے مختلف باتیں کہی ہیں، بعض نے کہا جائز ہے اور بعض نے کہا ناجائز ہے، ہمارے نزدیک اس کی دو صورتیں ہیں:

(۱) وہ بات اُس شخص تک پہنچ گئی جس کی غیبت کی گئی تھی تو اس کی توبہ یہ ہے کہ اس شخص سے معافی مانگے۔

(۲) اور اگر غیبت اس شخص تک نہیں پہنچی تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگے اور اپنے دل میں یہ عہد کرے کہ پھر غیبت نہیں کروں گا۔

''روضۃ العلماء'' میں ہے کہ میں نے ابو محمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اگر غیبت اس شخص تک نہیں پہنچی جس کی

غیبت کی گئی تھی تو غیبت کرنے والے
Flag Counter