والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق |
اغتاب؟ ففي ''منسک ابن العجمي'': لا یعلمہ بہا إن علم أنّ إعلامہ یثیر فتنۃ، ویدلّ علیہ أنّ الإبراء عن الحقوق المجھولۃ جائز عندنا لکن سبق أنّہ ھل یکفیہ حکومۃ ودیانۃ؟ اہـ، ما في ''منح الروض(۱)'' أقول: وفي جریان الخلاف المذکور ھاھنا نظر فإنّ الغیبۃ لا تصیر من حقوق العبد ما لم تبلغہ وإذا بلغتہ لم تکن من الحقوق المجھولۃ وقد قال في ''المنح'' نفسہ: ما نصّہ قال الفقیہ أبو اللیث: قد تکلّم الناس في توبۃ المغتابین ھل تجوز من غیر أن یستحل من صاحبہ؟ قال بعضھم: یجوز، وقال بعضھم: لا یجوز، وھو عندنا علی وجھین أحدھما إن کان ذلک(۱)۔۔۔المرجع السابق۔
معاف کردو، یا یہ ضروری ہے کہ یہ بھی بتائے کہ میں نے تمھاری یہ غیبت کی ہے۔ ابن العجمی کے''منسک'' میں ہے کہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ غیبت کے تفصیلاً بتانے سے فتنہ پیدا ہوگا تو اس کا اظہار نہ کرے، ہمارے نزدیک نا معلوم حقوق کے معاف کرنے کا جواز اس پر دلالت کرتا ہے لیکن یہ بات گزرچکی ہے کہ آیا فیصلے کے اعتبار سے کافی ہے یا دیانت کے طورپراھ۔(اعلی حضرت قدس سرہ، فرماتے ہیں) اقول (میں کہتا ہوں کہ) یہاں گزشتہ اختلاف کے جاری ہونے میں کلام ہے؛ کیونکہ غیبت اس وقت تک بندے کا حق نہیں بنتی جب تک اسے نہ پہنچ جائے، جب پہنچ جائے تو نا معلوم حقوق میں سے نہ رہے گی۔ خود ''منح الروض'' میں ہے کہ فقیہ ابو اللیث نے