Brailvi Books

والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق
72 - 119
 مقداراً وکان الواقع أزید وبینھما بون بیّن فإنّ من جعل في حلّ مطلقاً لم یرد خصوص ما في علمہ أمّا من جعل في حلّ من حقّ معلوم لہ فإنّما یذھب ذھنہ إلی قدر ما في علمہ، واللہ تعالٰی أعلم۔
امام محمد کے نزدیک بری نہیں ہو گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک بری ہو جائے گا اسی پر فتویٰ ہے،انتہٰی۔ اس میں اعتراض ہے کہ یہ فقیہ ابو اللیث کے مختار کے خلاف ہے ہو سکتا ہے ان کا قول تقویٰ پر مبنی ہو۔ ''منح الروض'' کا کلام ختم ہوا۔ 

اقول (میں کہتا ہوں)کہ فقیہ ابو اللیث کے مختار کے خلاف ہونے میں کلام ہے کیونکہ ''خلاصہ'' میں اس بارے میں گفتگو ہے کہ ایک شخص کو حقوق کا بالکل علم نہیں وہ انھیں معاف کر دیتا ہے اور فقیہ ابو اللیث کا کلام اس میں ہے کہ ایک شخص کے گمان میں حقوق کی ایک مقدار ہے جبکہ وہ درحقیقت زیادہ تھے اور ان دونوں صورتوں میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ جو شخص مطلقاً اپنے حقوق معاف کردیتا ہے اس کا ارادہ یہ نہیں ہوتا کہ میں صرف وہ حقوق معاف کر رہا ہوں جو میرے علم میں ہیں اور جو شخص کسی معین حق کو معاف کرتا ہے تو اس کا ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ جتنا مجھے علم ہے اسی قدر معاف کر رہا ہوں۔ واللہ تعالیٰ اعلم(ت)

    نیز''منح الروض'' میں ہے:
ھل یکفیہ أن یقول: اغتبتک فاجعلني في حلّ أم لا بدّ أن یبیّن ما
کیا یہ کافی ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ میں نے تمھاری غیبت کی ہے مجھے
Flag Counter