Brailvi Books

والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق
71 - 119
مطلقاً، وفي ''الخلاصۃ'': ''رجل قال لآخر: حلّلني من کلّ حقّ ھو لک عليّ،وأبرأہ إن کان صاحب الحقّ عالماً بہ بریئ حکماً ودیانۃ، وإن لم یکن عالماً بہ یبرأ حکماً بالإجماع، وأمّا دیانۃ فعند محمد -رحمہ اللہ تعالٰی- لا یبرأ دیانۃ، وعند أبي یوسف -رحمہ اللہ تعالٰی- یبرأ وعلیہ الفتوی''(۱)، انتھی۔ وفیہ أنّہ خلاف ما اختار أبو اللیث ولعلّ قولہ مبنيّ علی التقوی(۲) اھـ. ما في ''منح الروض''، أقول: وفي مخالفتہ لما اختار الفقیہ نظر فإنّ الکلام ھاھنا في البراء ۃ من الحقوق المجھولۃ لصاحبھا أصلاً وثمّہ فیما إذا ظن
مجھے معاف کردے اور حقوق کی تفصیل نہ کرے صاحبِ حق اسے معاف کردے تو اگر یہ معلوم ہو کہ صاحبِ حق حقوق کی تفصیل کو جان کربھی معاف کردے گا تو معاف ہوجائیں گے ورنہ نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا: یہ تفصیل عمدہ ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ اسے بہر صورت حقوق معاف ہو جائیں گے ''خلاصہ'' میں ہے کہ ایک شخض نے دوسرے کو کہا: تم مجھے اپنا ہر حق معاف کردو، اس نے معاف کردیا، اگر صاحبِ حق کو علم ہے پھر تو معافی مانگنے والا قضاء ًودیانۃً(یعنی فیصلے کے اعتبار سے اور اللہ کے نزدیک بھی) بری ہو جائے گااور اگر اسے علم نہیں توبالاتفاق یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ قضاء ً بری ہو گیا، رہا دیانۃً ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک) تو
(1).... ''خلاصۃ الفتاوی''، کتاب الہبۃ، الجزء۴، ص۴۰۶۔

(2)....''منح الروض الأزہر شرح الفقہ الأکبر''، التوبۃ وشرائطہا، ص۱۵۹۔
Flag Counter