والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق |
ھل یکفیہ أن یقول لک عليّ دین فاجعلني في حلّ أم لابد أن یعیّن مقدارہ؟ ففي ''النوازل'': رجل لہ علی آخر دین وھو لا یعلم بجمیع ذلک فقال لہ المدیون: أبرئني ممّا لک عليّ، فقال الدائن: أبرئتک، فقال نصیر: لا یبرأ إلاّ مقدار ما یتوھّم أي: یظنّ أنّہ علیہ، وقال محمد بن سلمۃ: یبرأ عن الکلّ قال الفقیہ أبو اللیث: حکم القضاء ما قالہ محمد بن سلمۃ وحکم الآخرۃ ما قالہ نصیر، وفي ''القنیۃ'': من علیہ حقوق فاستحلّ صاحبھا ولم یفصّلھا فجعلہ في حلّ بعذر إن علم أنّہ فصّلہ یجعلہ في حلّ وإلاّ فلا، قال بعضھم: إنّہ حسن وإن روی أنّہ یصیر في حل
کیا مقروض کے لئے یہ کافی ہے کہ قرضخواہ سے کہے کہ مجھ پر تمہارا قرض ہے مجھے معاف کردے یا ضروری ہے کہ قرض کی مقدار معین کرے ؟''نوازل'' میں ہے کہ ایک آدمی کا دوسرے پر قرض ہے اور اسے تمام قرض کا علم نہیں مقروض اسے کہتا ہے کہ تُو مجھے اپنا قرض معاف کردے، اس نے کہا: میں نے تجھے معاف کردیا۔ نصیر کہتے ہیں کہ اسی قدر معاف ہو گا جتنا کہ اس کے گمان میں تھا، محمد بن سلمہ کہتے ہیں کہ تمام معاف ہو جائے گا فقیہ ابو اللیث نے فرمایا: قاضی کا فیصلہ وہی ہے جو محمد بن سلمہ کا قول ہے اور آخرت کا حکم وہ ہے جو نصیر نے فرمایا، ''قنیہ'' میں ہے کہ جس شخص پر کسی کے کچھ حقوق ہوں تو وہ صاحبِ حق سے کہے کہ