والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق |
اس آیہ کریمہ میں ربّ العزت نے ماں باپ دونوں کے حق میں تاکید فرماکر ماں کو پھرخاص الگ کر کے گِنا اور اس کی ان سختیوں اور تکلیفوں کو جو اسے حمل و ولادت اور دو برس تک اپنے خون کا عطر پلانے میں(۱) پیش آئیں جن کے باعث اس کا حق بہُت اشدّ واعظم ہوگیا(۲) شمار فرمایا ،اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:
( وَوَصَّیۡنَا الْاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ )(3)
تاکید کی ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے حق میں کہ پیٹ میں رکھا اسے اس کی ماں نے سختی پر سختی اٹھا کر، اور اس کا دودھ چُھٹنا دوبرس میں ہے ، یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔
یہاں ماں باپ کے حق کی کوئی نہایت(۴) نہ رکھی کہ انہیں اپنے حقِ جلیل کے ساتھ شمار کیا، فرماتا ہے: شکر بجالا میرا اور اپنے ماں باپ کا،
اللہ أکبر اللہ أکبر وحسبنا اللہ ونعم الوکیل ولا حول ولا قوّۃ إلاّ باللہ العليّ العظیم،
یہ دونوں آیتیں اور اسی طرح بہت حدیثیں دلیل ہیں کہ ماں کا حق، باپ کے حق سے زائد ہے، ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
(1) خون کانچوڑیعنی دودھ پلانے میں (2) جن کی و جہ سے ماں کاحق بہُت زیادہ اور عظیم تر ہو گیا۔ (3) پ۲۱، لقمان: ۱۴۔ (4) حد و انتہا۔