Brailvi Books

والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق
23 - 119
سوال نمبر 9
آپ عليہ الرحمۃ اللہ عليہ نے آخري سوال يہ كيا  گيا كہ ايك عالم صاحب جو سيد, شريف النسب, بزرگ , متقي و پرہيزگار ہيں مسجد ميں امامت كرتے اور بچوں كو ديني تعليم ديتے ہيں ايك كم مرتبہ شخص نے ان سيد صاحب سے علم دين حاصل كيا اور پھر بعد ميں كسي اور سے فلسفہ وغيرہ پڑھ كر اپنے انہيں استاذ پر برتري ظاہر كرنا شروع كردي, يہاں تك كہ پيسوں كي لالچ ميں آكر اپنے استاذ كو مسجد سے نكلوانے كي بھي كوشش شروع كردي تاكہ خود ان كي جگہ پر قابض ہوجائے, شرعاً ايساشخص امامت كے لائق ہے يا نہيں؟
اس سوال كے جواب ميں اعلي حضرت رحمۃ الرحمن نے اپني عادت  كے مطابق قرآن و حديث اور فقہائے كرام كے اقوال كي روشني ميں دلائل كے انبار لگاديئے, عالم كا شرعي حق, اس كي شان و شوكت, اس كا مقام اور مرتبہ خوبصورت انداز ميں بيان فرمايا۔

آخر ميں اس بدباطن شخص كے بارے ميں حكمِ شرعي ارشاد فرمايا كہ 

"وہ بدترين فاسق وفاجر ہے, استاذ كي بے ادبي كرنے كي وجہ سے سخت سزا كا مستحق ہے, نہ تو اس كي امامت جائز اور نہ ہي كسي مسلمان كو اس كي صحبت ميں بيٹھنا جائز۔

چنانچہ اس سيد فقيہ عالم دين كو امامت سے ہٹانا اور اس كي جگہ فلسفہ كے دعويدار بيوقوف كو مقرر كرنا ناجائز ہے۔
Flag Counter