خطا كي تفصيل بيان كركے معافي مانگي ضروري تھي, اوربيوي نے شوہر كو اپني موت كے وقت جو مہر معاف كيا وہ معاف ہوگيا يا پھر مرضِ موت كے زمانے ميں ہونے كي وجہ سے اس پر وصيت كے احكام نافذ ہوں گے؟
سيدي اعلي حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان عليہ الرحمۃ الرحمن نے قوانينِ شرعيہ كي روشني ميں پُر دليل جواب ارشاد فرمايا كہ جہاں تك شوہر اور بيوي كے عام حقوق كي معافي كا معاملہ ہے وہ تو معاف ہوگئے ليكن بيوي كے حقوق ماليہ مثلاً مہر وغيرہ, تو وہ بيوي كے ورثاء كي اجازت پر موقوف ہے اگر وہ معاف كرديں تو معاف , ورنہ وہ تقاضا كرسكتے ہيں اور بيوي كے وہ حقوق جو مال كے علاوہ ہيں مثلاً كسي بات پر ناراضگي وغيرہ, اسي طرح شوہر كے وہ حقوق جن كا تعلق مال وغير مال سے ہے اس ميں جو كچھ شوہر اور بيوي كے علم ميں تھے وہ سب معاف ہوگئے اور جو علم ميں نہ تھے مگر معمولي تھے كہ معلوم ہونے پر بھي معاف كرديتے تو وہ بھي معاف ہوگئے۔
ہاں البتہ! میاں بیوی كے وہ حقوق جن كی تفصیل كے بعد دونوں میں سے كوئی ایك بھی اپنے حق كو معاف نہیں كرتا تو ایسے حقوق كے معاف ہونے یا نہ ہونے كے بارے میں علماء كرام كے درمیان اختلاف ہے بعض علماء كرام كہتے ہیں:
"مجمل یعنی غیر ظاہری الفاظ میں حقوق كی تفصیل بیان كیے بغیر بھی معافی طلب كرنے كی صورت میں تمام حقوق معاف ہوجائیں گے "۔
جبكہ بعض دوسرے علماء كرام كہتے ہیں:
"ہر ہر حق كو تفصیل سے بتاكر معافی مانگنے كی صورت میں ہی حقوق معاف ہوں گے ورنہ وہ حقوق ذمہ پر لازم رہیں گے"۔