ہوئے ڈانٹے لگا کہ کسی اور کو جاکرسمجھاؤ ہميں سمجھانے کی کوئی ضرورت نہيں ہے ۔اتنے ميں ايک بوڑھے شخص نے اس سے کہا:'' اس کی بات تو سنو کہ يہ کيا کہنا چاہتا ہے؟''ميں نے بھی اس گالياں دينے والے شخص سے عرض کی: ''بھائی ! گالياں دے کر اور مجھے مار کر اگرآپ کوسکون ملتا ہے تو يہ سب بھی کر لو مگر پھر ميری بات ضرور سن لینا۔'' اس پر وہ خاموش ہو گيا اور ميں نے اسے نیکی کی دعوت پیش کی اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں سیکھے ہوئے نماز پڑھنے کے فضائل اور نہ پڑھنے سے متعلق وعيدیں سنائیں، جب محسوس ہواکہ لوہا گرم ہو چکا ہے تو ميں نے کہا '' جو باتيں ميں آپ کو بتا رہا ہوں يہ توآپ کو مجھے بتانی چاہئے کیوں کہ میں نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اسلام قبول کیا ہے، پھر ميں نے مختصراً اپنے اسلام قبول کرنے اور اس دوران آنے والی آزمائشوں کے واقعات سنانا شروع کئے تو وہاں موجود لوگ رونے لگے حتی کہ مجھے گالیاں بکنے والا شخص روتے ہوئے کہنے لگا، بس کرو ورنہ ميرا دم نکل جائے گا۔اب یہ تما م ہمارے ساتھ مسجد میں چلنے کیلئے تیار تھے۔نمازِعصر ميں ہم دو نمازی تھے مگر حیرت انگیز طور پرنمازِ مغرب ميں 3 صفيں بن گئیں۔ايک بُزُرگ فرمانے لگے :''ميں ان لوگوں کو دیکھتے دیکھتے بوڑھا ہو گيا ہوں آج پہلی بار انہیں مسجد ميں دیکھ رہا ہوں۔ ''
اللہ عَزّوَجَلَّ کی امیرِ اہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو