عِلاوہ ازیں میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ علمِ تکسِیر، علمِ ہیئت ، علمِ جَفر وغیرہ میں بھی کافی مَہارت رکھتے تھے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حیرت انگیز قُوّتِ حافِظہ
حضرتِ ابو حامِد سیّد محمد محدِّث کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ جب دارُالْاِفتا میں کام کرنے کے سلسلے میں میرا بریلی شریف میں قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی سے لوگ حیران ہو جاتے۔ ان حاضر جوابیوں میں حیرت میں ڈال دینے والے واقِعات وہ علمی حاضِر جوابی تھی جس کی مثال سُنی بھی نہیں گئی۔ مَثَلاً اِستِفتا(سُوال) آیا، دارُالْاِفتا میں کام کرنے والوں نے پڑھااور ایسا معلوم ہوا کہ نئی قسم کا حادِثہ دریافت کیا گیا(یعنی نئے قسم کا مُعامَلہ پیش آیا ہے) اور جواب جُزئِیَّہ (جُز۔ئی۔یَہ) کی شکل میں نہ مل سکے گا فُقَہا ئے کرام کے اُصولِ عامَّہ سے اِستِنباط کرنا پڑے گا۔(یعنی فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السَّلام کے بتائے ہوئے اُصولوں سے مسئلہ نکالنا پڑے گا) اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے،عَرض کیا: عجب نئے نئے قسم کے سُوالات آرہے ہیں ! اب ہم لوگ کیا طریقہ اختِیار کریں ؟ فرمایا: یہ تو بڑاپُراناسُوال ہے۔ ابنِ ہُمام نے’’فَتْحُ القدیر‘‘ کے فُلاں صَفحے میں ، ابنِ عابِدین نے ’’رَدُّ الْمُحتار‘‘کی فُلاں جلد اورفُلاں صَفْحَہ پر(لکھا ہے)، ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘ میں ، ’’خَیریہ‘‘ میں یہ یہ عبارت صاف صاف موجود ہے اب جوکتابوں کو کھولاتو صَفْحَہ ، سَطر اور بتائی گئی