آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے کم وبیش پچاس عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابلِ قَدر کُتُب تصنیف فرمائیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علمِ تَوقِیت (عِلمِ تَو۔ قِی ۔ ت) میں اِس قَدَر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی مِلالیتے۔ وَقت بِالکل صحیح ہو تا اور کبھی ایک مِنَٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔ علمِ رِیاضی میں آپ یگانۂ رُوزگار تھے۔ چُنانچہ علیگڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضِیاء الدِّین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ارشاد ہوا: فرمائیے! اُنہوں نے کہا: وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عَرض کروں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا: کچھ تو فرمایئے۔ وائس چانسلر صاحِب نے سُوال پیش کیا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اُسی وَقت اس کا تَشَفّی بخش جواب دے دیا۔ اُنہوں نے اِنتہائی حیرت سے کہا کہ میں اِس مسئلے کے لیے جرمن جانا چاہتا تھا اِتِّفاقاً ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سیِّد سُلَیمان اشرف صاحِب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضِر ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحِب بصد فرحت و مَسرّت واپَس تشریف لے گئے اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی شخصیَّت سے اِس قَدَر مُتَأَثِّر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صَوم وصَلوٰۃ کے پابند ہوگئے۔(ایضاً ص۲۲۳، ۲۲۹) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم