کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شَیدا ہزار پھرتے ہیں
(اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے مِصرعِ ثانی میں بطورِ عاجِزی اپنے لیے ’’کُتّے ‘‘ کا لفظ اِستِعمال فرمایا ہے مگر اَدَباً یہاں ’’شیدا‘‘ لکھا ہے)
شَرحِ کلامِ رضا:ؔاِس مَقطَع میں عاشقِ ماہِ رسالت سرکارِ اعلیٰ حضرت کمالِ انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ سے فرماتے ہیں : اے احمد رضا!ؔتو کیا اور تیری حقیقت کیا! تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ گلیوں میں یوں پھر رہے ہیں !
یہ غَزَل عَرض کرکے دیدار کے اِنتظار میں مُؤَدَّب بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی اور چشمانِ سر(یعنی سر کی کھلی آنکھوں ) سے بیداری میں زیارتِ محبوبِ باری صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُشرَّف ہوئے۔(ایضاًص۹۲) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ !قربان جائیے اُن آنکھوں پر کہ جو عالَمِ بیداری میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدار سے شَرَفیاب ہوئیں۔ کیوں نہ ہو کہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے اندر عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ’’فَنا فِی الرَّسول‘‘ کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا نعتیہ کلام اس اَمر کا شاہد ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد