کا فقیر ہوں۔ میرا دین’’پارئہ نان‘‘ نہیں۔ ’’نان‘‘ کا معنیٰ روٹی اور ’’پارہ‘‘ یعنی ٹکڑا ۔مطلب یہ کہ میرا دین ’’روٹی کا ٹکرا‘‘ نہیں ہے کہ جس کے لیے مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بیداری میں دیدارِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ دوسری بار حج کے لیے حاضِر ہوئے تو مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں نبیِّ رَحمتِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی آرزو لیے روضۂـ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے، مگر پہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی۔ اِس موقع پر وہ معروف نعتیہ غَزَل لکھی جس کے مَطلَع میں دامنِ رَحمت سے وابَستگی کی اُمّید دکھائی ہے۔ ؎
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
شَرحِ کلامِ رضا:ؔاے بہار جھوم جا! کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے۔ وہ دیکھ! مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُوئے لالہ زار یعنی جانِب گلزار تشریف لا رہے ہیں !
مَقطَع میں بارگاہِ رسالت میں اپنی عاجِزی اور بے مایَگی (بے ما۔یَہ۔گی یعنی مِسکینی )کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ؎