رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطلَع ۱؎ یہ ہے: ؎
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گُمانِ نَقص جہاں نہیں
یِہی پھول خار سے دُور ہے یِہی شَمع ہے کہ دُھواں نہیں
مشکل الفاظ کے مَعانی :کمال= پورا ہونا ۔نَقص=خامی۔خار=کانٹا شَرحِ کلامِ رضا:ؔمیرے آقا محبوبِ ربِّ ذوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حسن و جمال درجۂ کمال تک پہنچتا ہے یعنی ہر طرح سے کامل و مکمَّل ہے اس میں کوئی خامی ہونا تو دُور کی بات ہے ، خامی کا تصوُّر تک نہیں ہو سکتا، ہر پھول کی شاخ میں کانٹے ہوتے ہیں مگر گلشنِ آمِنہ کاایک یِہی مہکتا پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسا ہے جو کانٹوں سے پاک ہے، ہرشَمع میں یہ عیب ہوتا ہے کہ وہ دُھواں چھوڑتی ہے مگر آپ بزمِ رسالت کی ایسی روشن شَمع ہیں کہ دھوئیں یعنی ہر طرح کے عیب سے پاک ہیںاور مَقطَع ۲؎ میں ’’نا ن پارہ‘‘ کی بندِش کتنے لطیف اشارے میں ادا کرتے ہیں :
کروں مَدحِ اَہلِ دُوَل رضا ؔ پڑے اِس بَلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین ’’پارئہ ناں ‘‘نہیں
مشکل الفاظ کے مَعانی :مَدح=تعریف۔دُوَل=دولت کی جَمع۔پارۂ ناں =روٹی کا ٹکڑا شرحِ کلامِ رضا: ؔمیں اَہلِ دولت و ثَروَت کی مَدح سَرائی یعنی تعریف و توصیف کیوں کروں ! میں تو اپنے آقائے کریم ،رَء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ غزل یا قصیدہ کے شروع کا شعر جس کے دونوں مصرعوں میں قافیے ہوں وہ مَطْلَع کہلاتا ہے۔
۲؎ کلام کا آخری شعر جس میں شاعر کا تخلص ہو وہ مَقْطَع کہلاتا ہے۔