Brailvi Books

تلخیص اُصول الشاشی مع قواعد فقہیہ
17 - 144
پہلی مثال:    

     فقہ کا قاعدہ ہے کہ:'' الاصل فی الاشیاء الاباحۃ'' یعنی اشیاء میں اصل ان کا جائز ہونا ہے۔اس قاعدہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام اشیاء واعمال مباح ہیں اور جب تک کسی شے کے بارے میں حرمت و ممنوعیت کی دلیل نہ ہو اسے ممنوع وحرام نہیں کہا جاسکتا۔اب اس اصول کا استخراج علماء وفقہاء نے جن نصوص سے کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:قرآن کریم میں ہے:
    (1)۔۔۔۔۔۔(قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا )

(2)۔۔۔۔۔۔(قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیۡکُمْ )

(3)۔۔۔۔۔۔(وَمَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰىکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا )
   [الانعام: 145] [الانعام: 151] [الحشر: 7] ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس کے بارے میں حرمت کی دلیل نہ ہووہ جائز ومباح ہے نیز جس چیز سے منع کیا جائے وہی ممنوع ہے اور جس سے منع نہ کیا جائے یا جس کے بارے ممنوعیت کی دلیل نہ ملے وہ مباح وحلال ہے۔اسی طرح بہت سی احادیث سے بھی اس قاعدے کا استنباط واستخراج ہوتا ہے۔ مثلاً :
    (1)۔۔۔۔۔۔((عن سعد بن وقاص عن ابیہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال ان اعظم المسلمین جرما من سأل عن شیء لم یحرم فحرم من أجل مسئلتہ)) (صحیح بخاری)

    (2)۔۔۔۔۔۔((اَلْحَلَالُ مَا اَحَلَّ اللہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَہُ اللہُ فِیْ کِتَابِہٖ، وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عُفِیَ عَنْہُ))۔ رواہ ابن ماجہ والترمذی

    (3)۔۔۔۔۔۔((اِنَّ اللہَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَیِّعُوْھَا وَنَھٰی عَنْ اَشْیَاءَ فَلَا تَنْتَھِکُوْھَا وَحَدَّ حُدُوْداً فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَاءَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلَا تَبْحَثُوْا عَنْھَا))۔ رواہ الطبرانی
Flag Counter