تنبیہ :
قرآن وحدیث اوردیگر علوم وفنون میں رسوخ کے سبب اِن مجتہدین میں یہ اعلی صفات موجود تھیں، لیکن آج کل جو اصولِ فقہ بصورتِ درس وتدریس پڑھائے جاتے ہیں ان سے اس قسم کے ملکہ استنباط کا پیدا ہونا ناپید ومفقود ہے چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ جلد12صفحہ482 پر ارشاد فرماتے ہیں: ''و مجتھد خود از صدہا سال مفقود است یعنی مستقل مجتھدتوصدیوں سے مفقود ہے۔''تاہم پھر بھی اس علم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس علم کے دیگر اور بھی فوائد ہیں جنہیں'' معارف الاحکام'' میں یوں بیان کیا گیا ہے:
(۱)۔۔۔۔۔۔ مجتہد نے جن دلائل سے احکام کا استنباط کیا ہے ان سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے اور یوں غیر مجتہد کا ذہن احکام پر عمل کے لئے خوب مطمئن ہو جاتا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔جن احکام پر امام سے دلیل منقول نہیں ہوئی اس فن کے ذریعے اس دلیل سے آگاہی ہو سکتی ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ ان اصول سے آگاہی کی وجہ سے اپنے مذہب کا دفاع آسان ہوجاتا ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ وہ حوادث ونئے واقعات جو امام صاحب کے دور میں پیش نہیں آئے تھے ان کا حکم ان قواعد کی روشنی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسے واقعات جو امام کے دور میں تھے مگر امام سے ان کے بارے میں نص یا تصریح نہ پہنچی تو ان قواعد واصول کی روشنی میں انہیں بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام بحث کے بعد یہ بیان کرنا بھی زیادتی ئشوق کا باعث ہوگا کہ قرآن وحدیث سے مجتہدین کرام و فقہائے عظام کس طرح استنباط واستدلال کرتے ہیں چنانچہ اس کی چند مثالیں اختصار کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔