Brailvi Books

تلخیص اُصول الشاشی مع قواعد فقہیہ
15 - 144
موقوف ہے،اس کی وجہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان عالیشان ہے :
وَمَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰىکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا
ترجمہ کنزالایمان :اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو، اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(الحشر: 7)

    اور اجماع کا قرآن وسنت پر موقوف ہو نا اس لئے ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کاہونا شرط ہے ۔اوروہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے ہوگی، اب چاہے وہ دلیل کوئی صریح آیت ہو یا حدیث نبوی اگر چہ خبر واحد ہی ہو یا پھروہ دلیل قرآن یاسنت کی طرف راجع (لوٹنے والی) ہو۔ لہٰذاقرآن پاک ہراعتبارسے اصل ہے جبکہ سنت ،اجماع اور قیاس ایک اعتبارسے اصل اورایک اعتبارسے فرع ہیں ۔ 

    اس گفتگوسے ثابت ہواکہ حقیقت میں تمام احکام شرعیہ کا مرجع اوران کوثابت کرنے والے فقط دو ہیں اوروہ قرآن کریم اورسنت نبویہ ( عَلٰی صَاحِبِہَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)ہیں، باقی اصول اِنہیں دو کی طرف راجع ہیں۔

    تاریخ اسلام میں چار مجتہدین مشہور ہیں۔اللہ کریم ان مجتہدین ِاسلا م پر رحم وکرم فرمائے کہ انہوں نے نہایت جانفشانی وعرق ریزی اور انتھک کوشش سے قرآن وحدیث سے صحیح احکامات ومسائل کا استنباط واستخراج کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل تیار فرما دیا ، اب جوشخص بھی ان میں سے کسی ایک کے طریقے پر عمل کریگا ان شاء اللہ عزوجل نجات پائے گا جب کہ اس کے برخلاف جو قرآن وحدیث میں اپنی ناقص عقل کو دخل دے گا ٹھوکروں پر ٹھو کریں کھائے گا( عَافَانَا اللہُ مِنْہُ)۔

    یہ مجتہدین کرام علم اصول فقہ میں بے پناہ مہارت وخداداد صلاحیت کی بناء پر وہ مسائل بھی حل فرمالیتے تھے جو کہ قرآن وحدیث میں صراحۃً نہیں ملتے اس طریقے سے مسائل کو حل کرنا قیاس کہلاتا ہے لیکن قیاس بھی نہ ہر شخص کے بس کاکام ہے اورنہ ہر شخص کے لیے جائز ۔
Flag Counter