ہوجاتا ہے۔پھردلیل کے بارے میں بھی اختلاف ہے ،جمہور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگردلیل قیاس ہو تو یہ بھی درست ہے اور یہ واقع بھی ہے جیسے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نمازکی امامت کروانے پرقیاس کرتے ہوئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پراجماع ہوا اوریہاں تک کہاگیاکہ ''اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جن سے ہمارے دینی معاملہ میں راضی ہیں تو کیا ہم اُن سے اپنی دنیوی معاملہ میں راضی نہ ہوں ؟'' نیز اجماع کے لئے خبر واحد دلیل بن سکتی ہے ،اس پرسب کا اتفاق ہے جیسا کہ عام کتابوں میں مذکورہے۔
اسی طرح قیاس کے لئے بھی کسی اصل کا ہونا ضروری ہے جو قرآن یاسنت سے ثابت ہوکیونکہ قیاس توحکم کوظاہرکرنے والاہوتاہے نہ کہ اس کوثابت کرنے والا۔چنانچہ،''شَرْحُ مِرْقَاۃِ الْوُصُوْل'' میں فرمایا:''قیاس مُظْھِر(یعنی حکم کوظاہرکرنے والا)ہوتاہے ،مُثْبِت (یعنی حکم کوثابت کرنے والا) نہیں ہوتا۔اور ظاہرمیں ''مُثْبِت ''(قرآن وسنت سے )دلیلِ اصل ہوتی ہے اورحقیقت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے۔