یعنی تو پھر میں اپنی رائے وقیاس سے کام لوں گا۔ اس پر سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِہٖ بِمَا یَرْضٰی بِہٖ رَسُوْلُہٗ
یعنی تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں کہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی کہ جس سے اس کا رسول راضی ہے۔یہاں اختصار کے سبب بقیہ حدیث دربارہ حجیت قیاس کو ترک کرتے ہیں، کتب ان احادیث سے مملو ہیں۔
واضح رہے کہ اجماع و قیاس کے لئے قرآن وسنت سے کسی دلیل کاہوناضروری ہے چنانچہ علامہ عبد الغنی النابلسی علیہ رحمۃ اللہ القوی ''شرح مرقاۃ الوصول ''کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ ''اجماع کے لئے کسی ایسی دلیل یا علامت کا ہونا ضروری ہے جس کی طرف اجماع منسوب ہو سکے کیونکہ بغیر کسی داعی کے سب کا کسی ایک بات پر متفق ہونا عادۃًمحال ہوتا ہے۔اوراس لئے کہ وہ حکم جس پر اجماع منعقد ہوتا ہے اگر وہ دلیل سمعی سے نہ ہو تو دلیل عقلی سے ہوگا حالانکہ یہ بات طے ہے کہ ہمارے نزدیک عقل کا کوئی حکم ثابت نہیں۔''
حضرت سیِّدُناعلامہ تفتازانی قُدِّسُ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے اپنی کتاب''اَلتَّلْوِیْح''میں فرمایا:'' جمہور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجماع بغیر کسی دلیل وعلامت کے جائز نہیں کیونکہ دلیل کا نہ ہونا خطا کو لازم کرتا ہے جبکہ دین میں بلا دلیل کوئی حکم دینا خطا ہے اوراُمت کا خطا پراجماع(اتفاق) ممتنع (ناممکن)ہے، اسی طرح بغیر کسی داعی کے سب کاایک بات پر متفق ہونا عادۃًمحال ہے جیسے ایک ہی کھانا کھانے پر سب کا اتفاق ناممکن ہے۔ اور اجماع کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے پائے جانے کے بعد بحث ختم ہوجاتی ہے،مخالفت ناجائزقرارپاتی اور حکم قطعی