تین طلاقیں اکٹھی دیدی تھیں تو نبی کریم رؤف رّحیم انتہائی جلال میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا وہ شخص اﷲعزّوجل کی کتاب کے ساتھ کھیلتا ہے حالانکہ میں ان کے درمیان موجود ہوں حتی کہ ایک آدمی نے کھڑے ہوکر کہا۔ یا رسول اﷲ اکیا میں اُسے قتل کردوں۔ (مشکوٰ ۃ ۴ ۲۸)
لہذا تین طلاقیں اکٹھی نہ دی جائیں کہ گناہ ہیں البتہ اگر کسی نے تین طلاقیں اکٹھی دے دیں تو یقینا واقع ہوجائیں گی ۔ جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث میں موجود ہے ۔اس مسئلے کی تفصیل کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہوتی ہیں کتبِ علمائے اہلسنت میں موجود ہے نیز اس کے لئے دارالافتاء اہلسنت کنزالایمان مسجد بابری چوک (گرومندر ) کراچی سے بھی تفصیلی مدلّل فتوی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
سوال نمبر۲۸:-کیا تین طلاقوں کے بعد خاندان کے بڑے لوگ صلح کرواسکتے ہیں اگر نہیں تو جو لوگ غیر مقلدین سے فتوی لیکر دوبارہ سابقہ بیوی کو گھر میں رکھ لیتے ہیں ان کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب :-جب تین طلاقوں کے بعد قرآن و حدیث کے فرامین سے عورت کا مرد پر حرام ہونا ثابت ہے تو خاندان کے بڑے یا غیر مقلدین ہرگز اﷲعزّوجل کے حرام کو حلال نہیں کرسکتے ۔ تین طلاقوں کے بعد بغیر حلالے کے بیوی رکھنا حرام ہے اور بے غیرتی ہے۔ اور ایسی عورت سے مرد کا جماع کرنا حرام و زنا ہے ۔اور اس زنا کے گناہ میں مرد و عورت ، خاندان کے صلح کرانے والے لوگ اور غیر مقلدسب شامل ہیں۔ اور اس بے غیرتی میں سب شریک ہیں۔ او ر یہ ایسا زنا ہوگا جو ساری زندگی ہوتا رہے