ہے یا اُس پر کسی نے جادو یا عمل کردیا ہے کہ وہ جماع پرقادر نہیں ۔اور اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو ان صورتوں میں طلاق دینا واجب ہے جبکہ عورت ساتھ رہنے پر راضی نہ ہو ۔
سوال نمبر۶: -اگر طلاق غصے میں دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے یا نہیں ؟
جواب :-اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی ہے یعنی آدمی کی حالت پاگلوں والی ہوجائے ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق نہ ہوگی ۔ لیکن ایسی حالت ہزاروں کیا لاکھوں میں کسی ایک کی ہوتی ہوگی اکثر یوں نہیں ہوتا بلکہ غصے کی آخری حالت یہی ہوتی ہے کہ رگیں پھول جائیں ،اعضاء کانپنے لگیں ،چہرہ سرخ ہوجائے اور الفاظ کپکپائیں ۔ایسی حالت میں یا اس سے کم غصے میں طلاق دی تو واقع ہوجائے گی ۔ او رآجکل یہی صورت حال ہوتی ہے ۔ بعد میں کہتے ہیں ۔جناب ! ہم نے تو غصے میں طلاق دی تھی۔ ایسے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ طلاق عموما غصے میں ہی دی جاتی ہے خوشی اور پیار محبت کے دوران توشاید ہی کوئی طلاق دیتا ہو لہذا یہ عذر درست نہیں ۔
سوال نمبر ۷:-اگر طلاق کے وقت عورت موجود نہ ہو تو طلاق ہو جائے گی یا نہیں ؟
جواب:-طلاق کے لئے بیوی کا وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ۔ شوہر بیوی کے سامنے طلاق دے یا دیگر رشتے داروں کے سامنے یا دوستوں کے سامنے یا بالکل تنہائی میں ہر حال میں اگر شوہر نے اتنی آواز سے الفاظِ طلاق کہے کہ اس کے کانوں نے سن لیے یا کانوں نے شور وغیرہ کی وجہ سے سُنے تو نہیں لیکن آواز اتنی تھی کہ اگر