ایک دن باب المدینہ (کراچی )سے اس کے دوست کی طرف سے شادی کا دعوت نامہ ملنے پر ،جب یہ شادی میں شرکت کیلئے کراچی پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ دوست جو قدم بہ قدم گناہوں کی منز ل پر ایک عرصہ تک ساتھ چلتا رہا تھا اس کے سر پر سبز عمامہ شریف کا تاج سجا ہوا تھا، چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی تھی اور وہ سفید سنتوں بھرے لباس میں ملبوس نگاہیں جھکائے کھڑا تھا۔ چونکہ وہ ماضی میں اس سے انتہائی بے تکلف تھا ، لہٰذا اس نے تفریح لینے کے انداز میں اس پر چند جملے کسے مگر اس کا وہ دوست جوپہلے انتہائی حاضر جواب مشہور تھا،ا س نے جواب دینے کے بجائے محض مسکرا کر سرجھکا لیا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر وہ مزید کچھ نہ بول سکا۔
چند دن شادی کی گہما گہمی رہی۔ ہفتہ کے دن اس کے دوست نے دعوت دی کہ میرے پیر و مرشد جو زمانے کے ولی اورتبلیغِ قرآن وسنت کی غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی اور امیرہیں،ان کا بیان سننے چلنا ہے۔ جب وہ فیضان مدینہ پہنچے تو بیان اختتام کے قریب تھا۔ بعدِبیان امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ملاقات شروع ہوئی اور دوست نے ملاقات کیلئے اس کاذہن بنایا،تو وہ کہنے لگا کہ تم جانتے ہو کہ میں خود شخصیت ہوں، میری ملاقات کیلئے تو خود قِطار لگتی ہے، میں کسی سے ملوں! یہ کیسے ممکن ہے؟ خیر مبلغ نے دوست پر انفرادی کوشش جاری رکھی۔آخر وہ اس شرط پر امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے ملاقات