حضور صدر الافاضل اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجوددار الافتاء بھی بڑی خوبی اور باقاعدگی کے ساتھ چلاتے،ہند وبیرون ہندنیز مراد آباد کے اطراف و اکناف سے بے شمار اِسْتِفْتا اور استفسارات آتے اور تمام جوابات آپ خود عنایت فرماتے بفضلہ تعالیٰ فقہی جزئیات اس قدر مستحضر تھے کہ جوابات لکھنے کے لیے کُتُبْہَائے فقہ کی طرف مراجعت کی ضرورت بہت ہی کم پیش آتی۔
شہزادہ صدر الافاضل حضور رہنمائے ملت حضرت علامہ سید اختصاص الدین علیہ رحمۃ اللہ المبین فرمایا کرتے تھے کہ میراث وفرائض کے فتوے کثرت سے آتے مگر حضرت کو جواب لکھنے کے لیے کتاب دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا آج تو ایک بَطْن دو بَطْن چار بَطْن کے فتوے اگر دار الافتاء میں آجائیں تو گھنٹوں کتابیں دیکھی جاتی ہیں تب کہیں جاکر فتوے کا جواب لکھا جاتا ہے اور وہ بھی کبھی ایک مفتی دوسرے مفتی کے فتوے کو مسترد کردیتا ہے مگر حضرت صدر الافاضل کا یہ حال تھا کہ بیس بیس اکیس اکیس بطون کے فتوے بھی دار الافتاء میں آگئے مگر حضرت قلم برداشتہ بغیر کتاب دیکھے جواب تحریر فرما دیتے تھے البتہ انگلیوں پر کچھ شمار کرتے ضرور دیکھا جاتا اور آپ کے فتوے کے اِسْتِرداد کی کبھی نوبت نہیں آئی۔