Brailvi Books

سوانحِ کربلا
14 - 188
دستارِ فضیلت:
بہار زندگی کا بیسواں سال تھا مدرسہ مراد آباد دلہن کی طرح سجا ہوا تھا، علماء ومشائخ رونق افروز تھے کہ ایک چمکتا ہوا تاج استاد محترم نے دستار کی شکل میں اپنے چہیتے تلمیذ خوش تمیز (صدر الافاضل) کے سر پر رکھتے ہوئے ایک تابِنْدَہ ودَر خشندہ سند فراغت ہاتھ میں عطا فرمائی اور اپنے بغل میں مسند تدریس وارشاد پر بٹھا دیا۔ یہ رسم دستارِ فضیلت ۱۳۲۰؁ھ مطابق ۱۹۰۳؁ء کو ادا ہوئی۔اسی وقت آپ کے والد گرامی حضرت علامہ مولانا سید محمد معین الدین نزہتؔ صاحب نے بہجت وسرور میں ڈوب کر ایک قطعہ ارشاد فرمایا جس سے مادہ سن فراغت نکلتا ہے۔ ؎

ہے میرے پسر کو طلباء پر وہ فضیلت



سیاروں میں جو رکھتا ہے مِرِّیخ فضیلت

نزہتؔ نعیم الدین کو یہ کہہ کے سنادے



دستارِ فضیلت کی ہے تاریخ ''فضیلت''
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی زیارت:
      حضرت صدرالافاضل خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، آپ کی قابلیت کے سبب بعد فراغت ہی کئی علوم وفنون میں آپ کی بالا دستی اور علم وفضل کی شہرت ہونے لگی۔ درایں اثنا جودھ پور کے ایک بد عقیدہ دَرِیْدَہ دہن و گستاخ قلم مولوی جو سنی علماء کے مضامین کے رد میں مقالے لکھا کرتا اور اپنے خُبْثِ باطن کا اظہار کرتا،اس نے اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مولانااحمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے خلاف ایک نہایت نامعقول ورذیل مضمون لکھ کر اخبار ''نظام الملک''میں شائع کروادیا۔ چنانچہ ضَیْغَم صحرائے ملت، استاذ العلماء، سندالفضلاء،حضور سیدی صدرالافاضل نے اس قسمت کے مارے، خباثت کے
Flag Counter