آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کو جواب دیا ،وہ بھی بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :بیس نیکیاں لکھی گئی ہیں ۔پھر ایک اور آدمی حاضر خدمت ہوا ، اس نے عرض کیا:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَ کَاتُہٗ
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کوجواب دیا اور فرمایا ، تیس نیکیاں ہیں ۔
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والادب،باب ما فی فضل السلام،الحدیث۲۶۹۸،ج۴،ص۳۱۵)
(۱۹)اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 22 صَفْحَہ409 پر فرماتے ہیں : کم از کم السَّلامُ علیکم اوراس سے بہتر وَرَحمَۃُ اللہ ملانا اور سب سے بہتر وَبَرَکاتُہ، شامل کرنا اور اس پر زِیادَت نہیں۔ پھرسلام کرنے والے نے جتنے الفاظ میں سلام کیا ہے جواب میں اتنے کا اِعادہ تو ضَرور ہے اور افضل یہ ہے کہ جواب میں زیادہ کہے۔ اس نے السَّلامُ علیکم کہا تو یہ
وعَلَیکُمُ السَّلام وَرَحمَۃُ اللہ
کہے۔ اورا گر اس نے السَّلامُ علیکم وَ رَحمَۃُ اللہ کہا تو یہ
وَعَلیکمُ السَّلامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکاتُہٗ
کہے اوراگر اس نے وبَرَکاتُہ، تک کہا تویہ بھی اتنا ہی کہے کہ اس سے زِیادَت نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(۲۰)جو سورہے ہوں ان کو سلام نہ کیا جائے بلکہ صرف جاگنے والوں کو سلام کریں چنانچہ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم رات کو تشریف لاتے تو سلام کہتے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سونے والوں کو نہ جگا تے اور جوجا گ رہے ہوتے ان کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سلام ارشاد فرماتے ۔ پس ایک