یعنی اور تم پر بھی سلامتی ہواور اللہ عزوجل کی طر ف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔
( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ جدید،ج۲۲،۴۰۹)
(۴)سلام کرنا حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے ۔
(مراٰۃ المناجیح ،ج۶،ص۳۱۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: '' جب اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ او رفرشتو ں کی اس بیٹھی ہوئی جماعت کو سلام کرو۔ اور غور سے سنو! کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہے ۔حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے فرشتو ں سے کہا :
''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللہِ''
( صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان ،باب بدء السلام،الحدیث۶۲۲۷،ج۴،ص۱۶۴)
(۵)عام طو ر پرمعروف یہی ہے کہ
'' اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ''
ہی سلام ہے ۔مگر سلام کے دو سرے بھی بعض صیغے ہیں ۔ مثلاً کوئی آکر صرف کہے ''سلام'' تو بھی سلام ہوجاتا ہے او ر'' سلام'' کے جواب میں،''سلام '' کہہ دیا ، یا ،
کہہ دیا تو بھی جواب ہوگیا۔''
(ماخوذازبہارِ شریعت،حصہ۱۶،ص۹۳)