دے دینا)۔ اے کاش! ہمارا ربّ عَزَّوَجَلَّ بھی ہم سے درگزر فرمائے۔“ چنانچہ، جب اس نے جہانِ فانی سے کوچ کیا تو ش عَزَّوَجَلَّ نے اس سے دریافت فرمایا:”کیا تو نے کبھی کوئی نیکی بھی کی؟“اس نے عرض کی:”نہیں، ہاں البتہ! میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور جب اپنے خادم کو قرض کی وصولی کے لئے بھیجتا تو اسے کہا کرتا تھا کہ خوشحال سے تو لے لینا مگر تنگدست سے مت لینا بلکہ درگزر کرنا، ہو سکتا ہے کہ (اسی کے سبب) ش عَزَّوَجَلَّ ہم سے بھی درگزر فرمائے۔“ تو ش عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:”(جاؤ!)میں نے تمہیں بخش دیا۔“(1 )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! قرض دینے اور حاجت مند اور تنگدست پر رحم و شفقت کی کس قدر برکت ظاہر ہوئی۔ ہمارے اسلاف بکثرت قرض دینے کے ساتھ ساتھ حاجت مند اورتنگدست پر رحم اور عفو و درگزر کا معاملہ بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ،
سارا قرض معاف کر دیا:
حضرت سیِّدُنا شقیق بلخی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک شخص آپ کو دیکھ کر چھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پکارا، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نے
(1)المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، الحدیث:8738، ج 3،ص285