راستہ کیوں بدل دیا؟ اور کیوں چھپ گئے؟ اس نے عرض کی:”میں آپ کا مقروض ہوں، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں، آپ سے شرماتا ہوں۔“ امام اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الۡاَکۡرَمۡ نے فرمایا:”سُبْحَانَ اللہ! میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے، جاؤ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا۔ اور میں نے اپنے آپ کو اپنے نفس پر گواہ کیا۔ اب آئندہ مجھ سے نہ چھپنا۔ اور سنو جو خوف تمہارے دل میں میری وجہ سے پیدا ہوا مجھے وہ بھی معاف کر دو۔“( 1)
میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! قربان جایئے سَیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مبارک سیرت پر، کس قدر تنگدست پر شفقت فرمائی اور نہ صرف اپنا قرض معاف کر دیا بلکہ اس کے دل میں جو خوف پیدا ہوا اس پر بھی کمال درجہ کی عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی طلب کر رہے ہیں۔
میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! سَیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا تقویٰ کمال درجہ کا تھا۔ آپ حاجت مندوں کو نہ صرف قرض دیا کرتے بلکہ درگزر سے بھی کام لیا کرتے۔ اور قرض پر کسی قسم کا نفع لینے سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے کہ کہیں سود میں مبتلا نہ ہو جاؤں،سَیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سود تو سود، کے شبہات سے بھی اپنے تقویٰ کے سبب بچا کرتے تھے۔ چنانچہ،
(1)مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ج1، الجزء الاول، ص 260