سبحان اللہ! الله عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
حضرت سَیِّدُنا سمیط بن عجلان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:” اے انسان! تیرا پیٹ بہت مختصر یعنی فقط ایک بالشت مکعب ہے ، یعنی ایک بالشت چورس، چکور ہی تو ہے پھر وہ تجھے دوزخ میں کیوں لے جائے؟“اور کسی دانا سے پوچھا گیا:”آپ کا مال کیا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا:”ظاہر میں اچھی حالت میں رہنا، باطن میں میانہ روی اختیار کرنا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہونا۔“( 1)
قناعت پسند کو بادشاہوں سے کیا کام؟
حضرت سَیِّدُنا قبِيْصَھ بِنۡ عُقْبَھ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ملنے کیلئے ایک روز کوہستانی علاقے کا شہزادہ اپنے خدّام کے ساتھ حاضر ہوا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مکان سے نکلنے میں کافی دیر لگائی۔ اس پر اس کے خادموں نے پکار کر کہا:”حضور! آپ (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) کے دروازہ پر مَلِکُ الۡجِبَال (یعنی پہاڑوں کے بادشاہ) کا شہزادہ کھڑا ہے اور آپ ہیں گھر سے نکلتے نہیں۔“ یہ سن کر حضرت سَیِّدُنا قبِيْصَھ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چند روٹی کے سوکھے ٹکڑے لئے باہر تشریف لائے اور دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:” جو شخص دنیا میں اتنے ہی پر قناعت کرکے راضی ہوچکا ہو اس کو مَلِکُ الۡجِبَالسے کیا کام؟ الله عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں اس سے بات بھی نہیں کروں گا۔“( 2)
(1)إحياء علوم الدين ، كتاب ذم البخل ، بيان ذم الحرص ۔۔ الخ، ج3،ص295
(2)تذکرۃ الحفاظ، الرقم 370 قبیصہ بن عقبہ،ج1، الجزء الاول، ص274