حقیقی دولت:
میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو!دنیا کے مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ حقیقی دولت تقویٰ،پرہیز گاری،خوفِ خدا اورعشقِ مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم ہے اور الله عَزَّ وَجَلَّ یہ دولت اسے عطا فرماتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ لہذا دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ فرعون، نمرود اور قارون بھی تو دولت و حکومت والے تھے۔مگر ان کی دولت و حکومت انہیں ابدی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکی جس سے معلوم ہوا کہ حکومت اور دولت کا ہونا فضیلت کا باعث نہیں،بلکہ فضیلت کا باعث تو یہ ہے کہ الله عَزَّ وَجَلَّ ہم سے راضی ہو جائے، تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے۔ اور اگر دولت ملے تو وہ جس کے ملنے پر ربّ راضی ہو، حلال اور شبہ سے پاک ہو۔ جیسا کہ دولت تو سیدنا عثمان غنی اور حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس بھی تھی، مگر ان کی دولت حرام اور شبہ کے مال سے پاک تھی۔اور انہیں جو دولت بھی ملتی اسے اسلام کے نام پر قربان کرتے چلے جاتے اور الله عَزَّ وَجَلَّ اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمکی رضا کے حصول کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ، دولت مند صحابہ کرام نے اپنی دولت سے ایسے ایسے غلام آزاد کئے کہ انہوں نے عشقِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمکی لازوال مثالیں رقم کیں۔ یعنی امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سَیِّدُنا بلال حبشی