(4) ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب حضورنبیٔ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
فَمَنۡ یُّرِدِ اللہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلۡاِسْلٰمِ ۚ (پ8،الانعام: 125)
ترجمۂ کنز الایمان: اور جسے الله راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔
اس کےبعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”جب نور سینے میں داخل ہوتا ہے تو سینہ کھل جاتا ہے۔“ عرض کی گئی:”یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم! کیا اس کی کوئی علامت ہے جس کے ذریعے پہچان ہو سکے؟“ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”ہاں دھوکے والے گھر سے دور رہنا، دائمی گھر کی طرف رجوع کرنا اور موت کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیاری کرنا۔“( 1)
(5) ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ایک روز حضورنبیٔ پاک،صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمباہرتشریف لائے تو اسوقت دھوپ درخت کی ٹہنیوں تک پہنچ چکی تھی۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا اسی قدر باقی رہ گئی ہے جس قدر گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں یہ وقت باقی ہے۔“( 2)
(1)المستدرک للحاکم، کتاب الرقاق، باب اعلام النور فی الصدور،الحدیث: 7933،ج 5،ص442
(2)موسوعۃ للامام ابن ابی الدنیا، کتاب قصر الامل، الحدیث 120،ج 3،ص331