لکیر کے بارے میں فرمایا کہ یہ انسان ہے اور مربع لکیر کے بارے میں فرمایا کہ یہ موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ درمیان والی لکیریں مصائب ہیں جو اس کو نوچتے ہیں اگر ایک سے بچ جائے تو دوسرے کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور باہر نکلنے والی لکیر کے بارے میں فرمایا کہ یہ امید ہے۔ ( 1)
(2) ۔۔۔ حضرت سَیّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافعِ رنج و مَلال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے صحابہ کرام رِضۡوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمۡ اَجۡمَعِیۡنسے دریافت فرمایا:”کیا تم سب جنت میں جانا چاہتے ہو؟“ انہوں نے عرض کی:”جی ہاں! یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم!“ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”امیدیں کم رکھو، اپنی موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور الله عَزَّوَجَلَّ سے اس طرح حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔ “ ( 2)
(3) ۔۔۔ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے سَیّدُنا معاذ بن جبل سے ان کے ایمان کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے عرض کی: ”میں جب بھی کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ اس کے بعد دوسرا قدم نہیں اٹھاؤں گا۔“( 3)
(1)صحیح البخاری، کتاب الرقاق، فی الامل وطولہ، الحدیث:6417،ج4،ص224
(2)کتاب الزہد لابن مبارک، باب الھرب من الخطایا و الذنوب، الحدیث: 317،ص 107
(3)حلیۃ الاولیاء، الرقم 36معاذ بن جبل، الحدیث:816،ج 1،ص306