Brailvi Books

سود اور اس کا علاج
45 - 84
حلال و حرام کی تمیز کا ختم ہونا:
	میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! مال حرام آفت ہے اور آہ!اب وہ دور آچکا ہے کہ معاشرے سے حلال وحرام کی تَمیز ختم ہو گئی ہے، انسان مال کی محبت میں اندھا ہوچکا ہے، اسے بس مال چاہئے۔ چاہے جیسے آئے۔ چنانچہ، 
	حضورنبیٔ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پَرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے؟ حلال سے یا حرام سے۔“( 1)
	میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو!مالٕ حرام میں کوئی بھلائی نہیں، بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے، مالٕ حرام سے کیا گیا صدقہ قبول ہوتا ہے نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذابٕ جہنم کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ، 
مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ مقبول نہیں:
	 حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے:”جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اُس میں برکت نہیں 
(1)صحیح البخاری، کتاب البیوع، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:  يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، الحدیث:2083، ج 2،ص14