میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتْ فتاویٰ رضویہ ج 17، ص 307 پر اس حدیثِ پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر(70)بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں۔“ (1 )
ناعاقبت اندیش لوگ:
میٹھے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! اس پُر فتن دور میں بعض افراد سود (Interest) کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے؟ کبھی کہتے ہیں اگر سودی کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی (International Market) میں مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اور کبھی انتہائی کم شرحِ سود (Interest rate) کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں، طرح طرح کی بد ترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1)فتاویٰ رضویہ، ج17، ص 307