اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، پروانۂ شمعِ رسالت، مولانا الشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرََّحْمٰن فتاویٰ رضویہ شریف میں اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” کافروں نے اعتراض کیا تھا : (اِنَّـمَا الْبَـیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ) بےشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے۔ تم جو خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا ہے۔“
یہ اعتراض نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتْ نے الله عَزَّ وَجَلَّ کا یہ فرمان نقل کیا: (وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ( یعنی الله نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود۔اور پھر ارشاد فرمایا:”تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو، سرِ بندگی خم کرو۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں،حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بےجا ہے، یہ کیوں ہے؟ یوں نہ ہونا چاہئے، یوں ہونا چاہئے۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں ہوتی تو اس ملک الملوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے، کا دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے۔“( 1)
اور جو ان احکامات کو قید و بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین و ملت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتْ سمجھا رہے ہیں:”جو آج بے
(1)فتاویٰ رضویہ، ج17، ص359