رقمیں دُوسروں کے ذمہ باقی تھیں، اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابق کے مطالبہ بھی واجب الترک ہیں اور پہلا مقرر کیا ہوا سود بھی اب لینا جائز نہیں۔“(1 )
اس کے بعد الله تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے:
فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖۚترجمۂ کنز الایمان: پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو الله اور الله کے رسول سے لڑائی کا
وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوۡسُ اَمْوٰلِکُمْۚ لَا تَظْلِمُوۡنَ وَلَا تُظْلَمُوۡنَ﴿۲۷۹﴾ اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔
(پ3،البقرۃ: 279)
تفسیر:
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْھَادِی اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:”یہ وَعید و تَہدِید میں مبالغہ و تَشدید ہے۔ (یعنی)کس کی مجال کہ الله اور اس کے رسول سے لڑائی کا تصور بھی کرے۔ چنانچہ، اُن اصحاب نے اپنے سودی مطالبے چھوڑے اور یہ عرض کیا کہ الله اور اس کے رسول سے لڑائی کی ہمیں کیا تاب؟ اور تائب ہوئے۔“( 2)
(1)خزائن العرفان، پ3،البقرۃ: تحت الایۃ 278
(2)المرجع السابق، تحت الایۃ 279