سود کے شبہات سے بچنا:
سَیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک جنازہ پڑھنے تشریف لے گئے، دھوپ کی بڑی شدت تھی اور وہاں کوئی سایہ نہ تھا، ساتھ ہی ایک شخص کا مکان تھا، جس کی دیوار کا سایہ دیکھ کر لوگوں نے سیِّدُنا امامِ اعظم امامِ ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی کہ حضور! اس مکان کے سایہ میں کھڑے ہو جایئے۔ میرے آقا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم نے ارشاد فرمایا کہ اس مکان کا مالک میرا مقروض ہے اور اگر میں نے اس کی دیوار سے کچھ نفع حاصل کیا تو میں ڈرتا ہوں کہ Q کے نزدیک کہیں سود لینے والوں میں شُمار نہ ہو جاؤں۔ کیونکہ مدینے والے مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے:”جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔“ چنانچہ، آپ دھوپ ہی میں کھڑے رہے۔ ( 1)
قرض پر نفع لینا سود ہے:
فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجددِ دین و ملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا الشاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں:”قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ
(1)تذکرۃ الاولیاء، ص188