اور کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشٰبِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمْ وَ قُلُوۡبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللہِ‘‘ (1)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، باربار دہرائی جاتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ کی یاد کی طرف نرم پڑجاتے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔ (2)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن کو غم کے ساتھ پڑھو کیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ (3)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب تم سورۂ سبحان میں سجدہ کی آیت پڑھو تو سجدہ کرنے میں جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم روؤ اور اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے تو دل کو رونا چاہئے (اور تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں حزن و ملال کو حاضر کرے کیونکہ ا س سے رونا پیدا ہوتا ہے)۔(4)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غم ظاہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے پھر سوچے کہ اِس نے اُس کے احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور روئے گا اور اگر غم اور رونا ظاہر نہ ہو جس طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔(5)
وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّ ۙ وَنَطْمَعُ اَنۡ یُّدْخِلَنَا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1…زمر: ۲۳۔
2…ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲/۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷۔
3…معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲/۱۶۶، الحدیث: ۲۹۰۲۔
4…تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷/۵۵۱۔
5…احیاء العلوم، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثانی فی ظاہر آداب التلاوۃ، ۱/۳۶۸۔