ترجمۂکنزالعرفان:اے محبوب! تم فرماؤ ،اللہ نے سچ فرمایالہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
{ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًاؕ: لہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے۔} اس آیت میں دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’ دین محمدی کی پیروی کرو ،کیونکہ اس کی پیروی ملتِ ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیۡنَ﴿ۚ۹۶﴾
ترجمۂکنزالایمان: بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما۔
ترجمۂکنزالعرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ’’ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ رہا ہے، نیزیہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے ۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱/۲۷۴)
اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱- باب، ۲/۴۲۷، الحدیث: ۳۳۶۶)
اور فرشتوں کا قبلہ بیتُ المعمور ہے جو آسمان میں ہے اورخانہ کعبہ کے بالکل اوپر ہے۔
(کنز العمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل الامکنۃ، ۷/۴۹، الجزء الرابع عشر، الحدیث: ۳۸۰۸۱)
کعبۂ معظمہ کی خصوصیات :
اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کعبۂ معظمہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔