کہ تورات میں یہ مضمون موجود ہے، اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو تورات لاؤ اور اس میں سے نکال کر دکھا دو کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حرام تھیں۔ اس پر یہودیوں کو اپنی ذلت و رسوائی کا خوف ہوا اور وہ تورات نہ لاسکے، ان کاجھوٹا ہونا ظاہر ہوگیا اور انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱/۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ احکام کا مَنسوخ ہونا ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ لہٰذا قرآن کی بعض آیات کے منسوخ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر تفصیلی کلام سورۂ بقرہ کی آیت 106میں گزر چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا علم شریف اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تورات و انجیل سے خبردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو غیبی علوم عطا فرمائے ہیں۔
فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ الْکَذِبَ مِنۡۢ بَعْدِ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۹۴﴾
ترجمۂکنزالایمان:تو اس کے بعد جو اللہ پر جھوٹ باندھے تو وہی ظالم ہیں
ترجمۂکنزالعرفان:پھر اس کے بعد بھی جو اللہ پر جھوٹ باندھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ الْکَذِبَ: پھر جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} یعنی اس بات کی وضاحت تو ہوگئی کہ بنی اسرائیل پر جو کچھ کھانے حرام ہیں یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حرام کرنے سے ہوئے، تو جو اِس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ’’ ملتِ ابراہیمی میں اونٹوں کے گوشت اور دودھ اللہ تعالیٰ نے حرام کئے تھے‘‘ وہ ظالم ہے۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کے باوجود گناہ کرنا زیادہ سخت ہے نیز حلال کو اپنی طرف سے بلا دلیل حرام کہنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کرنا ہے۔
قُلْ صَدَقَ اللہُ۟ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًاؕ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ﴿۹۵﴾
ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ اللہسچا ہے تو ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور شرک والوں میں نہ تھے۔