فانوسِ شریعت ہی کا نور ہے اگر اسے بجھا دیا تو نور کہاں سے آئے گا ۔ یہ کہنے پر شیطان ناکام و نامراد ہو جاتا ہے اور بندہ اﷲ تعالیٰ کی مدد سے نور حقیقی تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اگر بندہ شیطان کے فریب میں آگیا اور سمجھا کہ ہاں دن تو ہوگیا اب مجھے چراغ کی کیا حاجت رہی اور یہ سمجھ کر اس نے شریعت کا چراغ بھجا دیا تو جیسے ہی یہ چراغ بجھائے گا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا ہوجائے گا کہ جیسے ہی اسے بجھایا ہر طرف ایسا سخت اندھیرا ہوگیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا جیساکہ قرآن عظیم نے فرمایا '' ایک پر ایک اندھیریاں ہیں۔ اپنا ہاتھ نکالے تو نہ سوجھے اور جسے خدا نور نہ دے اس کے لئے نور کہاں '' ( نور ۴۰) تو یہ ہیں وہ لوگ جو طریقت بلکہ اس سے بلند مرتبہ حقیقت تک پہنچ کر اپنے آپ کو شریعت سے بے پرواہ سمجھے اور شیطان کے دھوکے میں آکر اس فانوسِ الٰہی کو بجھادیا اور تباہ و برباد ہوگئے اور یہاں پر بھی وہی پہلے والا معاملہ ہے کہ کاش یہی ہوتا کہ اس نور کے بجھنے سے جو عالمگیر اندھیرا چھایا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے نظر آجاتا کہ شاید وہ نادم ہو کر توبہ کرتے اور چونکہ فانوسِ شریعت کا مالک یعنی اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں پھر وہی روشنی عطا فرما دیتا مگر یہاں یہ معاملہ ہے کہ شیطان جہاں دھوکے سے آدمی کے ہاتھ سے فانوسِ شریعت بجھادیتا ہے اس کے ساتھ ہی اپنی طرف سے ایک سازشی بتی جلا کر ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ اور یہ لوگ اسی کو نور سمجھتے رہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ نور نہیں بلکہ نار یعنی آگ ہے اور یہ بے وقوف وجاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت والوں کے پاس کیا ہے ایک چراغ ہے جبکہ ہمارے پاس تو ایسا نور ہے جو اپنی نورانیت سے سورج کو شرمندہ کررہا ہے۔ شریعت ایک قطرہ اور ہماری طریقت ایک دریا ہے لیکن ایسا سمجھنے والے جانتے نہیں کہ شریعت