شریعت و طریقت |
زبان سے اتر جاتا ہے۔ رنگت' مزہ' بو کچھ یاد نہیں رہتی اور اس کے ساتھ ہی چکھنے' سونگھنے اور دیکھنے کے معنوی احساسات بھی فاسد ہوجاتے ہیں اور پھر آدمی کو گلاب اور پیشاب میں تمیز نہیں رہتی وہ ابلیس کا کھاری' بدبو دار' بدرنگ پیشاب غٹاغٹ چڑھا جاتا ہے اور گمان یہ کرتا ہے کہ طریقت کے دریا کا میٹھا' خوشبودار اور خوش رنگ پانی پی رہا ہوں۔ اس ساری گفتگو سے معلوم ہوا کہ شریعت منبع اور دریا کی مثال سے بہت بلند ہے۔
وَ لِلّٰہِ الْمِثْلُ الْاَعْلیٰ۔
اور اﷲہی کے لئے بلند صفت ہے۔ شریعت مطہرہ ایک ربانی نور کا فانوس ہے کہ دینی جہاں میں اس کے سوا کوئی روشنی نہیں اور اس روشنی کی کوئی حد نہیں یہ زیادہ سے زیادہ ہوسکتی ہے اس نور میں زیادتی اور اضافہ پانے کے طریقے کانام طریقت ہے۔ یہی روشنی بڑھ کر صبح اور پھر سورج اور اس کے بعد سورج سے بھی زیادہ غیر متناہی درجوں تک ترقی کرتی ہے اسی سے اشیاء کی حقیقتیں کھلتی ہیں اور نور حقیقی تجلی فرماتا ہے۔ اسی روشنی کو علم کے مرتبہ میں معرفت اور مرتبہ تحقیق میں حقیقت کہتے ہیں۔ یعنی اصل وہی ایک شریعت ہے مختلف مرتبوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔ جب شریعت کا یہ نور بڑھ کر صبح کی طرح ہوجاتا ہے تو ابلیس لعین خیرخواہ بن کر آتا ہے اور اسے کہتا ہے چراغ بجھا دو کہ اب تو صبح خوب روشن ہوگئی ہے۔ اگر آدمی شیطان کے دھوکے میں نہ آئے تو شریعت کا یہ نور بڑھ کر دن ہوجاتا ہے اس پر شیطان کہتا ہے کیا اب بھی چراغ نہ بجھائے گا اب تو سورج روشن ہے اب تجھے چراغ کی کیا حاجت ہے روز روشن میں شمع جلانا تو بیوقوف کا کام ہے۔ یہاں پر اگر ہدایت الٰہی آدمی کی مدد فرمائے تو بندہ لاحول پڑھ کرشیطان کو بھگا دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے اﷲ کے دشمن یہ جسے تو دن یا سورج کہہ رہا ہے یہ آخر کیا ہے ؟ اسی