شریعت و طریقت |
وہی طریقت کا پانی نظر آتا ہے جو شیطان دھوکے سے انہیں دکھاتا ہے۔ دیکھنے میں دریا اور حقیقت میں آگ کا بھڑکتا ہوا الاؤ۔ افسوس کہ اس پردے نے لاکھوں کو ہلاک کردیا۔ شریعت و طریقت اور دریا ومنبع کی مثال کے درمیان ایک عظیم فرق اور بھی ہے جس کی طرف پہلے اشارہ کیا کہ دریا سے نفع اٹھانے والوں کو نفع اٹھاتے ہوئے دریا کے نکلنے کی جگہ کی کوئی حاجت نہیں لیکن طریقت سے نفع اٹھانے والوں کو ہر وقت اور ہر لمحہ شریعت کی محتاجی رہتی ہے کیونکہ طریقت کا یہ پاکیزہ میٹھا دریا جو شریعت کے برکت والے سرچشمہ سے نکل کر فیضیاب کررہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک سخت کھاری ناپاک دریا بھی بہتا ہے
ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُہٗ وَ ہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ''
یہ میٹھا ہے خوب میٹھاپانی خوش گوار اور یہ کھاری ہے تلخ''(فاطر ۔۱۲) یہاں ذہن میں سوال آئے گا وہ دوسرا کھاری دریا کیا ہے تو سنئے وہ شیطان ملعون کے وسوسے اوردھوکے ہیں تو طریقت کے شیریں دریا سے نفع لینے والوں کو ہر لمحہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر نئی لہر پر اس لہر کے رنگ ،مزہ، بُو کو اصل منبع یعنی شریعت کے رنگ مزہ بُو سے ملاتے رہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ لہر شریعت کے منبع سے آئی ہے یا شیطانی پیشاب کی بدبو دار کھاری دھار دھوکہ دے رہی ہے لیکن یہاں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جب دونوں دریاؤں میں رنگ بو مزے میں اتنا واضح فرق ہے تو جیسے ہی کوئی شیطانی چکر ہوگا آدمی کو فوراً پتہ چل جائے گا کہ یہ طریقت کا صاف شیریں دریانہیں بلکہ شیطان کی طرف سے دھوکہ ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اصل کٹھن مرحلہ یہاں پر یہ ہے کہ طریقت کا پاک مبارک منبع اس قدر لطیف اور نفیس ہے کہ کمال لطافت کی وجہ سے اس کا مزہ بہت جلد