شریعت سے گر جاتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور گمراہ شخص پیر بننے کے لائق نہیں اور وہ درویش کہ جس کے پاس مخلوق بکثرت آتی ہے اسے شریعت کے مسائل میں احتیاط فرض ولازم ہے۔ اسے چاہے کہ وہ شریعت کے کسی باریک سے باریک مسئلہ کو بھی نہ چھوڑے کہ اس کا یہ عمل مریدوں کی گمراہی کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ مرید پیر کے اسی ترک عمل کو دلیل بنا کر کہیں گے ہمارے پیر نے تو اس طرح کیا تھا اس طرح مرید گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہوں گے۔'' پھر حضرت نے تینوں شرطیں بیان کرکے فرمایا '' جب مرید پیر کو ان تین شرطوں کے ساتھ متصف پائے تو اس کی بیعت کرلے کہ اب اس کی بیعت کرنا جائز و پسندیدہ ہے اور اگر ان تین شرائط میں سے ایک بھی شرط پیر میں نہیں پائی جاتی تو اس کی بیعت جائز نہ ہوگی اور اگر کسی نے لاعلمی میں کسی ایسے پیر کی بیعت کرلی ہو تو اسے چاہے کہ بیعت توڑ دے۔''