شریعت و طریقت |
بھی جائز نہیں سمجھتے چہ جائے کہ وہ احکام شریعت کو ہلکا جانیں اور چشتی ہونے کو شریعت کے احکام سے آزادی کا پروانہ سمجھیں سلطان الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ارشادات عالیہ سنئے فرمایا '' قوالی کے جائز ہونے کے لئے چند چیزیں ضروری ہیں۔ سنانے والا' سننے والا' جو چیز سنائی جارہی ہے اور آلئہ سماع ۔ قوالی سنانے والا مرد ہو بچہ اور عورت نہ ہو۔ سننے والا یاد حق سے غافل نہ ہو اور جو چیز سنائی جارہی ہے وہ فحش اور مسخرہ پن نہ ہو اور آلئہ سماع میں ہے جیسے چنگ اور رباب یعنی آلات موسیقی وغیرہ ایسی کوئی چیز درمیان میں نہ ہو۔ جب یہ شرطیں پائی جائیں تو قوالی حلال ہے۔ ''
(سیر الاولیاء ص ۴۹۱' ۴۹۲)
دوسرا نفیس فائدہ : ایک مرتبہ چند مریدوں نے عرض کی کہ آجکل بعض خانقاہ والے درویشوں نے باجوں کے مجمع میں وجد کیا فرمایا اچھا نہ کیا جو بات شریعت میں ناجائز ہے وہ کسی طرح پسندیدہ نہیں۔
(سیر الاولیاء ص ۵۲۰)
تیسرا نفیس فائدہ : کسی نے عرض کی جب وہ لوگ وہاں سے باہر آئے ان سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو باجے تھے وہاں کیوں قوالی سنی اور وجد کیا وہ بولے ہم ایسے بے خود ہوگئے تھے کہ ہمیں باجوں کی خبر ہی نہ رہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ جواب بہانہ بالکل فضول ہے اس طرح تو سب گناہوں میں یہی حیلے ہوسکتا ہے۔
(سیر الاولیاء ص ۵۲۱)
دیکھو محبوب الٰہی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کیسا شاندار جواب دیا کہ اس طرح تو گناہوں کا راستہ کھل جائے گا کوئی شراب پیئے اور کہدے کہ کمالِ استغراق کی وجہ سے ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یا پانی ۔ کوئی زنا کردے اور کہے کہ ہمیں پتہ نہ چلا کہ بیوی ہے یا کوئی اجنبی عورت۔