شریعت و طریقت |
کے دائرے میں نہیں پاتے توکہہ دیتے ہیں کہ یہ قول شریعت سے باہر ہے ۔ اس پر اہل فکر اہل کشف پر اعتراض کرتے ہیں مگر اہل کشف اہل فکر پر اعتراض نہیں کرتے اور جو کشف وفکر دونوں رکھتا ہے۔ وہ اپنے وقت کا حکیم ہے۔ لھٰذا جس طرح علوم فکر شریعت کا حصہ ہیں اسی طرح اہل کشف کے علوم بھی شریعت کا حصہ ہیں۔ تو دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں اور آجکل کیونکہ دونوں پہلوؤں کا جامع شخص موجود نہیں۔ لھٰذا محض ظاہر دیکھنے والوں نے شریعت و حقیقت کو جدا سمجھ رکھا ہے''۔
(الیواقیت والجواہر ص ۳۵)
سبحان اﷲ اس عبارت سے پتہ چلا کہ اہل ظاہر یعنی علماء اگر علومِ حقیقت کونہ سمجھیں تووہ معذور ہیں کہ وہ شریعت کے نیچے والے دائرے میں ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص ولایت کا دعویٰ کرے اور ظاہری علم کا انکار کرے وہ جھوٹا اور فریبی ہے کیونکہ اگر وہ حقیقتاً اوپر والے دائرے تک پہنچا ہوتا تو نیچے والے دائرے کا انکار نہ کرتا اور اس سے جاہل نہ ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ظاہر علم والے جڑیں اور باطنی علم والے شاخیں ۔ اگر شاخیں کاٹ دی جائیں تو اصل درخت باقی رہتا ہے لیکن اگر کوئی بلند شاخ پر پہنچ کر جڑ کاٹ دے تو اس کی ہڈی پسلی کی خیر نہیں نیز اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اہل ظاہر اگر شریعت و حقیقت کو جدا سمجھے تو ان کی غلطی ہے مگر اس وجہ سے وہ اپنے علم میں جھوٹے نہ ہوں گے۔ لیکن اگر تصوف کا دعویٰ کرنے والا علم ظاہر کا انکار کرے اور شریعت و طریقت کو جدا سمجھے تو وہ قطعاً جھوٹا اور مکار ہے۔ اٹھتیسواں قول : حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ علوم الٰہیہ میں ولی کاکشف اس علم سے آگے نہیں ہوسکتا جو اس کے نبی کی کتاب اور وحی عطا فرمارہی ہے۔ اس مقام میں حضرت جنید نے فرمایا ہمارے یہ علم کتاب وسنت کی قید