ہے جب بھی یہ کہنا کہ علمائے شریعت انبیاء علیھم السلام کے بالکل وارث نہیں محض پاگل ہے کیونکہ وراثت چھوڑنے والے کے ترکہ سے جس کو بالکل تھوڑا سا حصہ ملا وہ بھی وارث ہوتا ہے۔ اور انبیاء علیھم السلام کے علم میں تو جس کو ملا تھوڑا ہی ملا۔
بلکہ اگر شریعت و طریقت کی جدائی فرض کرلیں تو بھی بطورِ انصاف حدیث اِن طریقت سے جاہل شیطان کے مسخروں پر الٹی پڑے گی۔ یعنی علمائے ظاہر ہی انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے وارث ٹھہریں گے اور علماء باطن وراثت انبیاء سے محروم ٹھہریں گے۔ کیونکہ انبیاء کرام علیھم السلام نبی بھی ہوتے ہیں اور ولی بھی اور علوم نبوت وہ ہوتے ہیں جنھیں شریعت کہتے ہیں جس کی طرف وہ عام امت کو دعوت دیتے ہیں اور علوم ولایت وہ ہوتے ہیں جن کو یہ جاہل طریقت کہتے ہیں اور وہ خاص خاص لوگوں کو خفیہ علوم دیئے جاتے ہیں تو علماء باطن جو علومِ ولایت کے وارث ہوئے وہ اولیاء کے وارث ٹھہرے نہ کہ انبیاء علیھم السلام کے ۔۔۔۔۔۔ انبیاء علیھم السلام کے وارث تو یہ علمائے ظاہر ہی ٹھہرے جنہوں نے علوم نبوت پائے مگر یہ اس جاہل کی شدید جہالت ہے کہ شریعت و طریقت کو جدا راہیں سمجھا ہرگز یہ دونوں جدا راہیں نہیں اور نہ ہی اولیاء ث کبھی غیر علماء ہوتے ہیں علامہ مناوی شرح جامع صغیر پھر عارف باﷲ سیدی عبد الغنی نابلسی علیہ الرحمۃ حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں کہ امام مالکِ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں '' علم باطن وہی جانتا ہے جو علم ظاہر جانتا ہے'' اور امام شافعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں '' اﷲ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دیدیا اس کے بعد ولی کیا ۔علم باطن' علم ظاہر ہی کا نتیجہ ہوتا ہے تو جو علم ظاہر نہیں رکھتا وہ علم باطن کیسے پاسکتا ہے اﷲ تبارک وتعالیٰ کے متعلق بندوں کے لئے پانچ علم ہیں۔ (۱) علم ذات' (۲) علم صفات'