رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی شریعت کے خلاف کسی دوسرے راستے کی طرف بلایا ہو ہرگز نہیں۔
۶: جب حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عمر بھر شریعت کی طرف ہی بلایا اور یہی راستہ ہمارے لئے چھوڑا تو شریعت کا خادم' اس کا حامی' اس کا عالم کیوں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خادم نہ ہوگا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر بالفرض شریعت صرف فرض' واجب' سنت' مستحب' حلال' حرام ہی کے علم کا نام ہے تو یہ علم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے یا ان کے غیر سے اگر اسلام کا دعوی رکھتا ہے تو ضرور کہے گا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہی ہے جب یہ تسلیم ہے تو اس کا عالم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وارث نہ ہوگا تو کس کا ہوگا۔ علم بھی حضور کا، ترکہ بھی حضور کا پھر اس شریعت کا پانے والا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وارث نہ ہو اس کا کیا مطلب ہے ؟ اور اگر اس کے جواب میں کوئی یہ کہے کہ یہ علم تو ضرور سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہے مگر اس نے دوسرا حصہ یعنی علم باطن حاصل نہ کیا لھٰذا یہ وارث نہیں تو ایسے آدمی سے کہا جائے گا کہ اے جاہل !کیا وارث کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مورث (وراثت چھوڑنے والے) کا کل مال پائے ؟اگر ایسا ہو تو جہاں میں کوئی عالم' کوئی ولی' کوئی صدیق انبیاء علیھم السلام کا وارث نہ بن سکے گا کیونکہ انبیاء علیھم السلام کا کل علم تو غیر انبیاء کو مل ہی نہیں سکتا۔ اس صورت میں تو نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں معاذ اﷲ غلط ہو کر محال ہوجائے گا۔
اور گر بالفرض شریعت وطریقت دوجدا راہیں مانیں اور دونوں میں قطرہ و دریا کی نسبت مانیں یعنی شریعت کو قطرہ اور طریقت کو دریا مانیں جس طرح یہ جاہل عمرو بکتا